غلام حاضر ہے۔
شاید حضرت انسان خود سے غلام بننا پسند کرتا ہے ۔ممکن ہےکہ اکثر احباب اس بات سے اختلاف کریں اور جواباً کہیں کہ غلام کون بننا چاہتا ہے۔ ہم تو بس آقا ہی بننا چاہیں گے۔ اور اگر غلام مجبوراً ہیں تو ایک نہ ایک دن اس غلامی سے نجات پائیں گے ۔ ہم اور ہمارے اجداد میں سے اکثر غلام رہے اور آج بھی بے آقا غلام نمک حلالی کا حق ادا کرتے ہوے آقاؤں یا ماضی کے آقاوں کی ہر ادا پرعش عش کرتے ہوۓ جان لٹاتے نظر آتے ہیں۔ انھیں ان کا سب اچھا اور اپنا سب برا ہی نظر آتا ہے۔ خود انتقادی قابل تحسین ہے لیکن آقاؤں کی بے جا تقلید و تعریف ہر بات پر ذیب نہیں دیتی۔ یہ بات تو قابل مزمت و شرمندگی ہی ہے کہ ایک معاشرہ ہوس اور فحاشی دیکھنے میں اول درجے پر براجمان ہو۔ لیکن اس ہوس اور فحاشی کو دکھانے والے بھی اس سے سے زیادہ درجے کے سماج کے مجرم اور قابل مذمت و شرمندگی کے اہل ہیں۔اگر کوئی غلام اپنے آقا کی بے جا تقلید میں اپنے آقا کی نمک حلالی کا ثبوت دیتا رہے تو وہ یقیناً ایک نمک حلال غلام ہی ہے۔ تنقید اور صرف تنقید کا انجام کیا ہے۔ کیا میں یہاں اس درخت کے قصے کا حوالہ نہ دوں جس کو کاٹنے کی بجائے اس کے ارد گرد لوگوں نے اس کو برا بھلا کہ کر ہی سے اسے مار دیا تھا؟
کیا حکم ہے میرے آقا؟
غلام حاضر ہے۔
جی ہاں اب میرے ہاتھ اور پاؤں میں آپ کی غلامی کی زنجیریں تو نہیں ہیں تو کیا ہوا ۔ میں تو آپ ہی سے متاثر ہوں اور آپ جیسا ہی بننا چاہتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ میں اور میری نسلیں آپ ہی کے نقش قدم پر چلیں۔ آپ ہی جیسی دکھیں، آپ ہی جیسا کھائیں ، پیئیں، اٹھیں بیٹھیں اور آپ ہی کی بولی اپنائیں۔ میرا اپنا ہے ہی کیا ۔۔جو ہے وہ اس قابل نہیں کہ آپ کی برابری کر سکے۔ میرے آقا میں آپ کا ہوں اور رہوں گا۔ آپ دور نہیں ہیں یہیں میرے ساتھ ہیں یہ سب آپ کا ہی تو دیا ہوا ہے۔
غلام حاضر ہے۔۔۔
میں کوئی نیچھ نسل کا غلام تھوڑی ہوں۔ جدی پشتی خاندانی غلام ہوں۔۔اور مجھے اس پر فخر ہے۔ مجھ سے اب یہ دوری برداشت نہیں ہوتی میں آپ کے پاس آگیا ہوں ہمیشہ کے لئیے۔ میری ذندگی میں اب محرومیاں نہیں رہیں اور یہاں آپ نے مجھے وہ سب کچھ دے دیا جس کے لئیے بہت سے غلام اب بھی ترس رہے ہیں۔ میرے بچوں کو آپ نے مفت دی ان کو بچپپن سے ہی آذادی کےحقوق دیے مار پیٹ سے انھیں نجات دی میری بیٹی کو پاؤں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل بنا یا ۔ اگر میں اور میرے بچے بیمار ہوے تو ہمیں انتہائی عزت سے لاین میں انتظار کر وانے کےسلیقے کے ساتھ بہترین علاج کروایا۔ مجھے بے روزگاری الاؤنس دلوا کر میری مدد کی، جب گھر کی ضرورت پڑی تو بینک سے لون دلوا کر مجھے گھر دیا۔ کون کون سے احسانات میں آپ کےچکا پاؤں گا۔ یہاں تک کہ جب میں بوڑھا ہو گیا اور کسی کے قابل نہ رہا تو آپ نے مجھے انتہائی دلکش اولڈ ہوم میں ایڈجسٹ کیا۔ میرےمرنے پر چار کاندھوں کی محتاجی سے بچایا آپ نے اور بہترین گاڑی میں باعزت طریقے سے انتہائ خوبصورت قبرستان میں عزت سے دفنا کر مجھے میرے رشتے داروں کی محتاجی سے بچایا آپ نے۔
کیا حکم ہے میرے آقا؟
غلام حاضر ہے۔۔۔۔
جھوٹ مت بولو۔۔ تم نمک حرام اور موقع پرست ہو۔۔کیا کچھ نہیں دیا تمہیں۔۔ اور تم احسان فراموش نمک حرام ابن غلام آج مجھ سے مقابلہ کرتے ہو۔ میرے دیے ہوئے پر اعتراض کرتے ہو، میری سلطنت میں مجھ سے ہی آذادی چاھتے ہو۔ کھاتے میرا ہواور گن اس کے گاتے ہو، پہنتے میرا ہو اور نام اس کا جبتے ہو۔کس نے اندھیروں سے نکالا تمہیں ہر مشکل سے کس نے بچایا تمہیں۔ اور احسان کس کا مانا تم نے۔ جو کچھ تمہارا تھا اس کو جھٹلایا تم نے۔ میرے احکامات کو بھلایا تم نے۔ حقیقت کو چھوڑ کر باطل کو اپنایا تم نے۔ تو جان لو کہ اب بھی وقت ہے لوٹ آؤ ۔۔پہچانو اس کو جو حقیقت ہے باطل نہیں ہے۔ جو اٹل ہے فانی نہیں ہے۔ لوٹ آؤ کہ اب بھی وقت ہے۔ میں تمہارا ہوںآج بھی۔ نہ مانو سراب کی۔ غلام بننا تمہاری قسمت ہے۔ لیکن آقا بنا نا تمہارا اختیار۔ پہچان لو جان لو کون آقا ہے اور کون غلام۔
غلام ابن غلام حاضر ہو۔۔۔۔۔
کیا حکم ہے میرے آقا۔۔۔۔
میرے پیارے آقا میں نمک حرام نہیں ہوں- آپ کو ہی مانتا ہوں۔
گستاخ تو کیا جانتے بھی ہو۔
میرے لبوں پر صرف آپ ہی کا ذکر ہے۔
تو کیا میری مانتے بھی ہو۔
میرے حقیقی آقا۔۔ آپ نظر نہیں آتے۔
سیاہ نگری کے اندھیرے میں جھانک لیتے۔
پتہ نہیں معلوم مجھ کو۔
مظلوم کی سسکی سے پوچھ لیتے۔
گستاخی معاف۔۔ میرے آقا قطرہ بے اوقات ہوں میں۔اپنی رحمت میں ڈھانپ لیں مجھ کو۔ میں خطاوار ،کمزور غلام ابن غلام ہوں۔ حکم دیجئیے غلام حاضر ہے۔۔۔۔۔