انسانی معاشرے میں گدھے کا شمار ان معصوم و مظلوم جانداروں میں ہوتا ہے جنھیں اکثر انسان اپنے ذہنی اضطراب کے بےمعنی اخراج کے لئیے استعمال کرتا ہے۔ ارے گدھے کیا تمہیں سمجھ نہیں آتی؟ یہ کیا گدھوں کی طرح کام کر رہے ہو۔وغیرہ وغیرہ ۔۔اب ذرا گدھے کے وجود پر تو نظر ڈالئیے ایک چار ٹانگوں والا چوپایا۔ اکثر وہ اپنے کام سے کام ہی رکھتا ہے نا جانے کس نےذی شعور نے ” کام چور گدھا” دیکھ لیا۔ کام چور گد ھا یعنی وہ گدھا جو کام نہ کرے یا کم کرے،مختلف قسم کے حیلے بہا نے بنائے وغیرہ وغیرہ خیر تو بات ہو رہی تھی کہ گدھا ایک چار پاؤں والا جانور ہے جس کی دو آنکھیں 2 لمبے کان۔۔۔ کیا لمبے کان تو کیا وہ ان لمبے کانوں سے بہت دور کی بات سن لیتا ہے؟ یا وہ بہت زیادہ سنتا ہے۔ سننا کیا مشکل کام نہیں ہے ؟کمیونیکیشن کے ایکسپرٹ تو اکثر یہ کہتے ہیں کہ دنیا میں سننے کا فن کسی کسی کو آتا ہے۔ تو کیا جس کے کان لمبے ہوتے ہیں کیا وہ سننے کا ماہر ہوتا ہے پتہ نہیں کہ وہ کیا سنتا ہے؟تو چلیں کانوں سے لمبے تو اس کے پاؤں ہوتے ہیں جی ہاں ہوہی پاؤں جن پر وہ اپنا اور اپنے مالک کا بوجھ اٹھائے پھرتا ہے ۔۔مالک جو اسے چھڑی دکھا دکھا کر یا لگا لگا کر اپنا بوجھ اٹھواتا ہے اور وہ بیچارہ تھوڑی سی ہری یا پیلی گھاس کے لالچ میں چلتا ہی چلا جاتا ہے اور مالک یہ بھی نہیں کہتا کہ واہ کیا گدھا ہے۔ یعنی گدھے کو اپنے آپ کو سرائے جانے سے بھی کوئی مطلب نہیں ہوتا۔
کیا کہا کہ آپ اس بات سے متفق نہیں کہ اس میں اپنے آپ کو سراہے جانے کی لالچ یا خواہش نہیں ہوتی ؟ میں پوچھتا ہوں جناب آپ کو کیا پتا؟ کیا کسی گدھے نے آپ سے کہا یہ؟ اور یقیناً آپ تو گدھے ہیں نہیں۔ تو کیا جن کو اپنے آپ کو سراہے جانے کی خواہش نہیں ہوتی تو کیا وہ گدھے ہیں؟ہیں نہیں تو پھر جو اپنی پزیرائی کی خواہش رکھیں وہ ہرگز گدھے نہیں ہیں۔
گدھے کی آواز کے بارے میں کیا خیال ہے یقیناً آپ کہیں گے کہ بہت نا پسندیدہ۔۔۔ وربل کمیونیکیشن کے گرو تو آواز کی پچ کی اہمیت پر تو بہت بات کرتے ہیں لیکن کی گدھے کی آواز کی پچ سے یقیناً موازنہ نہیں کرتے اور یہ بات بھی مشہور ہے کہ گدھا اگر شیطان کو دیکھ لے تو وہ چلانا شروع کر دیتا ہے۔ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کے آس پاس کوئی شیطان تو نہیں تو فوراً جائیے گدھے کے پاس اگر وہ چلانا شروع کردے تو سمجھ جائیں کہ۔۔۔۔اس لحاظ سے تو ہمیں ایک گدھا تو رکھنا ہی چاہئیے تاکہ ہم اس کو پہچان سکیں۔ اور کیا اس کی چمڑی جی ہاں گدھے کی چمڑی ۔۔۔جانتے بھی ہیں کتنی قیمتی ہوتی ہے اور کیوں نہ ہو آخر وہ گدھے کی جو ہوئی آپ اس کو بیچ کو اچھا خاصا منافع کما سکتے ہیں تو کیا اب آپ چمڑے کی کمائی کھائیں گے ارے ہرج ہی کیا ہے ۔۔۔ویسے 1970 کی دہائی میں فرانس میں بننے والی فلم “دی ڈنکی سکن” اس وقت ک مشہور ترین فلموں میں سے تھی جس کے فروخت ٹکٹوں کی تعداد بیس لاکھ سے زیادہ تھی۔ ہوئے نہ آپ حیران کہ گدھے کی چمڑی کے نام پر بننے والی فلم اتنی مقبول کیسے ہو گئی لحاظہ اس کی پرواہ مت کیجیے کے گدھے کی چمڑی کی کمائی میں کوئی مذائقہ ہے۔گدھے کی سواری تو یقیناً آپ نے کی ہو گی؟ کیا نہیں ۔۔۔ ویسےکسی وقت میں بڑے بڑے لوگ گدھا نشین ہو چکے ہیں ویسے آج بھی کچھ لوگ بڑے فخر سے گدھےپر سوار ہوتے ہیں اور اپنی سیلفی بھی بنا کر فیس بک وغیرہ پر اپ لوڈ کرتے ہیں، کچھ علاقوں میں تو گدھا سواری کاخون ریز مقابلہ بھی منعقد ہوتا ہے جسے گدھے تو یقیناً محظوظ نہیں ہوتے۔ ویسے سوار سے یاد آیا کہ قابل توجہ بات گدھا سواری پر نہیں بلکہ گدھا نشینی پر ہے۔ کچھ لوگ تو بڑے شوق سے گدھے پالتے ہیں اور کچھ اپنے ہاں ان کو نوکریوں پر رکھ لیتے ہیں ، اور بڑے مزے سے گدھوں کا لیڈر بننے کو ترجیح دیتے ہیں، کچھ کمپنیز میں اکثر گھوڑوں سے گدھوں والا کام لیا جاتا ہےاور ان کو بانسل گھوڑوں کا نام دیا جاتا ہے۔ تو کیا بانسل گھوڑوں کا نام گدھوں پر رکھ دینے سے گدھا گھوڑا بن جاتا ہے؟یا خچر؟ویسے گدھا لاکھ پینٹ شرٹ پہن لے آخر گدھا ہی رہتا ہے۔ تو وہ لیڈر جو گدھے کو گھوڑے کا نام دے دیں اور ان کی پزیرائی اچھے لیڈر کے طور پر ہو تو یقیناً پزیرائی کرنے والا ہی لائق تحسین ہوگا اکژ و بیشتر کچھ بڑے منیجرز ایسا ماحول بنا دیتے ہیں جس میں گھوڑے گدھے جیسے کام کرنے لگ جاتے ہیں اور کچھ اس کے برعکس لحظہ اہم گھوڑا یا گدھا ہونا نہیں ہے بلکہ ان سے ان جیسا کام لینا ہو سکتا ہے تو کیا میں اب آپ کو گھوڑا یا گدھا منیجر کہہ سکتا ہوں۔ گھوڑا منیجر وہ جو گدھے کو گھوڑا سمجھ لیں یا گدھا منیجر جو گدھےکو گھوڑا ہی بنا دیں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ گدھے کو گدھا ہی رہنے دیں ۔کیونکہ وہ ذیادہ سے ذیادہ خچر تو بن سکتا ہےگھوڑا بالکل نہیں بن سکتا۔۔
محبت کرنے والوں کے نزدیک گدھے کی اہمیت کو کیا اجاگر کرنا ۔۔
مجنوں سے یہ آخر کیوں منسوب ہے کہ “دل آیا ۔۔۔۔۔ تو پری بھی کیا چیز۔۔آخر گدھا ہے کوئی ۔۔۔تو نہیں۔”