گیان۔۔۔فار سیل
حصہ اول
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سلطنت گیانستان میں ایک
نیک او رقابل بادشاہ حکومت کیا کرتا تھا۔ بادشاہ کی دلی خواہش تھی کہ وہ ایک
اچھی اور فلاحی مملکت تشکیل دے، وہ چاہتا تھا کہ اس کی حکومت میں شامل تمام لوگ
جدید علوم سے نہ صرف فیض مند ہوں بلکہ امور مملکت میں وہ ان جدید علوم
سے اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کے کام آسکیں۔ بادشاہ نے اس کام کے لیے اپنے محل
میں ایک کتب گھر بھی بنایا ہوا تھا جس میں مختلف علم و حکمت کی کتابیں رکھی ہوئیں تھیں۔ بادشاہ
کا وزیر بھی ایک قابل اور دانشور شخص تھا اسے بھی علم و حکمت سے بے پناہ لگاو تھا،
وزیراعظم نے بھی اپنے تمام محکموں میں اعلی تعلیم یافتہ لوگ رکھے
ہوئے تھے۔ اور وزیر اعظم کی بھی کوشش یہی ہوتی کے وہ اپنے ماتحتوں کو جدید
علوم سے روشناس کرے۔ اس کام کے لئیے وہ خو د بھی مطالعہ کرتا تھا اور دوسروں کو
بھی مطالعے کی ترغیب دیتا تھا اس کے علاوہ وہ اکشر باہر سے جدید علوم کے ماہرین کو
بلاتا اور ان ماہرین سے اپنے ماتحتوں کو تربیت دلواتا تا کہ مملکت کو چلانے والے
بھی جدید علوم سے فیض یاب ہوسکیں۔
سلطنت کے اہم محکموں میں مالیات، شماریات،
انسانی وسایل اور تجارت تھے، ان سب محکموں کی باگ دوڑ ان کے وزیروں نے سنبھالی
ہوئی تھی۔ وزیر اعظم ان محکموں کی کار گردگی کو گاہے بگاہے جانچتا رہتا تھا اور ان
میں اصلاح کے لیے بادشاہ کو عملی اقدامات کے ساتھ تجاویز بھی دیتا رہتا۔ سلطنت
گیانستان کا شمار اس خطے کی نامی گرامی سلطنتوں میں ہوتا تھا۔ بادشاہ کی خواہش تھی
کہ اس کی سلطنت اس خطے میں سب سےآ گے رہے خاص طور پر تجارت کے شعبہ میں، اس خواہش
کو جمع تکمیل پہنچانے کے لئیےاس نے کافی سرمایا لگایا ہوا تھا۔ وہ اپنے ماتحتوں کو
بلاجواز تنگ نہیں کرتا تھا اور نہ ہی انھیں مطلوبہ نتائج نہ آنے پر انھیں ملازمت
سے فارغ کرنے کے حق میں ہوتا تھا۔وزیراعظم کا بھی یہی خیال تھا ان کے نزدیک نتائج
اہم تو تھے لیکن وہ یہ سمجھتے تھے کے نتائج کی بنیاد پر کسی کو ملازمت سے فارغ
نہیں کرنا چاہیے بادشاہ اور وزیراعظم کی یہ سوچ ان کے مقابل بقیہ سلطنتوں کے کسی
حد تک بر خلاف تھی، اور وہ اس ضمن میں ان کے مقابل مملکتوں کے مقابلے میں خاطر
خواہ ترقی نہیں کر سکے تھے جس کی تشویش ان دونوں کو ہر وقت لگی رہتی تھی۔ وزیراعظم
اس ضمن میں مختلف ممالک سے ماہرین کو بھاری معاضے کے عوض بلواتا، ان سے اپنے تمام
اداروں کے وزیروں اور مشیروں سے تعلیم دلواتا، وہ ماہرین اپنے اپنے علمی مشوروں سے
ان کو نوازتے اور کامیابی کے گر بتا کر چلتے بنتے۔ جب ان کے جانے پر مختلف وزرا سے
ان ماہرین کے بارے میں استفسار کیا جاتا تو زیادہ تر وزیر ان ماہرین کی تعریفوں کے
پل باندھ دیتے اور وزیراعظم کا شکریہ ادا کرتے، بعض ان میں سے یہ بھی کہتے کہ جناب
ان باتوں کا تو ہمیں پہلے سے ہی علم تھا۔
وقت گزرتا گیا ویسے بادشاہ نے اپنے ماتحتوں کی
تربیت کے لئیے دو عامل و فاضل دانشوروں کو بھی رکھا ہوا تھا۔ یہ دانشور اپنے
شعبہ کے ماہر تھے ، لیکن ان دونوں کو شعبہ تجارت میں کوئی تجربہ نہیں
تھا اور انھیں زیادہ تر تربیت شعبہ تجارت کے لوگوں کی کرنی پڑتی تھی، ان ماہرین نے
کبھی بھی ا س شعبہ تجارت کے لوگوں کی تربیت کرنے سے انکار نہیں کیا تھا اور
وہ مختلف کتابیں پڑھ کر ان کی تربیت کرتے رہتے تھے، یہ بات غور طلب تھی وزیر
تجارت نے بھی ان ماہرین کی شعبہ تجارت میں تجربہ و مہارت نہ ہونے کا وزیر اعظم سے
برملا اظہار بھی نہ کیا تھا بلکہ وہ ان کی تربیت کی تعریف کیا کرتا تھا۔ کیا ٓپ
کسی موچی کی تربیت کسی جراح سے کروایئں گے؟
جب بھی ان ماہرین سے شعبہ تجارت کے لوگوں کی
نتائج میں بہتری نہ آنے کی بات کی جاتی تو وہ سارا ملبہ لوگوں کی صلاحیتوں پر ڈال
دیتے کے کم صلاحیت لوگوں کو رکھا گیا ہے، اس ضمن میں جب شعبہ انسان وسایل سے بات
کی جاتی تو وہ یہی کہتے کہ علمی معیار گر چکا ہے ہم باصلاحیت لوگ کہاں سے لائیں ،
غرض یہ کہ جب بھی مطلوبہ نتایج میں کمی کی بات کی جاتی تو ہر ایک شعبہ ذمہ داری
لینے کی بجائے ناکامی کا ذمہ دار کسی دوسرے شعبے کو ٹھراتا، لیکن جب بھی
کہیں کامیابی ملتی تو ہر ایک بندہ اس کامیابی کا ٹھیکیدار بننے کی کوشش کرتا۔ یہ
سلسلہ یونہی چلتا رہا۔
ایک دن بادشاہ اور اس کا وزیر سلطنت کے اہم
معملات پر مشاورت کر رہے تھے اور مختلف شعبہ جات کی کارگردگی کا جائزہ لے رہے تھے
وہاں بھی جن اہداف میں نتائج اچھے تھے تو وزیراعظم اس کامیابی کا سہرا اپنے سر
باندھنے کی کوشش میں نظرآئے اور بادشاہ سلامت دل ہی دل میں اسے اپنی اعلیٰ
ظرفی کا مظہر سمجھ رہے تھے۔ وزیراعظم صاحب اپنےآپ میں ہی گویا تھے یعنی ان
کے دل میں یہی تھا کہ سلطنت کا سارا نظام وہی چلا رہے ہیں اور جس دن وہ یہاں سے
چلے گے تو سلطنت کا سارا نظام تباہ ہو جاے گا۔ان کی اس سوچ میں ان کےرفقا ء
کا بہت ہاتھ تھا کیونکہ وہ ہر بات پر ان کے سامنے تعریف کیا کرتے تھے ان کے
مشیر انھیں دنیا کے نامی گرامی ماہرین سے ملاتے تھے، اور یہی کہتے تھے کہ ٓپ جیسا
گیانی انھوں نے دیکھا ہی نہیں۔ اپنی تعریفیں سن سن کر وزیراعظم صاحب کی گردن کافی
اکڑ چکی تھی اور انھیں اکژاپنے ہم پلہ افراد کسی حیثیت میں نظر نہیں ٓتے تھے۔
سلطنت کے مسائل وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے جارہے
تھے اور وسایل میں کمی ہوتی جارہی تھی۔ یہ بات بادشاہ کے لیے باعث تشویش تھی جب
بھی وزیراعظم سے اور باقی وزرا سے اس بارے میں بات چیت ہوتی تو سارے وزرا مل کر
پیداوار بڑھانے کا وعدہ کرتے اور ایک سال کی مدت میں چیزیں بہتر کرنے کی یقین
دہانی کرواتے، اور سال گزرنے کے بعد سلطنت اپنے اہداف سے پیچھے رہ جاتی۔ جب بھی
بادشاہ ان سے ان کی کارگردگی کے بارے میں بات کرتا تو وہ وزرا اپنی انفرادی
کارگردگی جن جگہوں پر بہتر ہوتی اس کا ذکر کرتے اور ناکامی کا ذمہ دار اپنے نیچے
ماتحتوں کو ٹھراتے اور یہ بتاتے کہ کیسے ان کے ماتحت مطلوبہ اہداف حاصل نہ کر
سکےاور اگلے سال وہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگلے سال کے نتائج حاصل کرنے کا پھر
حلف لیتے، سال گزر جاتا اور احداف حاصل نہ ہوتے اور انھی حیلوں بہانوں اور وعدوں
سے اگلے سال کا آ ٓغاذ ہوجاتا۔
مشیروں نے وزیرعظم اور بادشاہ کو یہ یقین دلا
دیا تھا کہ دنیا کے حالات خراب سے خراب تر ہو چکے ہیں اور اب اس زمانے میں
پہلے جیسے محنتی اور باصلاحیت لوگ نہیں رہے لہذا انھیں اپنے ماتحتوں کی بہت سی
باتوں کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ ان باتوں جیسے وقت پر نہ آنا، اپنے لباس ، وضع
قطع جو کسی بھی اچھر شہری کا وطیرہ ہوتی ہے ان کا معیار پر نہ ہونا وغیرہ
وغیرہ کو نظر انداز کرنا شامل تھا۔ یہاں تک کہ ان کے اپنے بڑے عہدے دار بھی ان سب
باتوں کو نظر انداذ کرنے لگے تھے، وہ بھی اکژوقت کی پابندی، مطلوبہ ضروری امور کی
بجاآوری میں برملا کوتاہی برتتے ہوے نظر ٓتے تھے، اور ان میں سے کبھی کوئی معیاری
کام کرنے کی کوشش کرتا تو سب مل کر اس کا مذاق اڑاتے اور اسے بھی مجبور کر دیتے کہ
وہ بھی ان جیسا ہی بن جائے۔
سلطنت میں مالی بدعنوانیاں بھی شروع ہو چکی
تھیں، اور یہ کافی منظم طریقے سے چل رہی تھیں ، بڑی مالی بدعنوانیاں ایک گروہ کی
صورت میں ہو رہیں تھیں جس میں کچھ صورتوں میں کافی بڑے بڑے عہدے دار بھی شامل تھے۔
چھوٹی بدعنوانیوں میں کسی ایک چھوٹے عہدےدار کے ساتھ کوئی ایک ماتحت شامل ہوتا،
دلچسپ بات یہ ہے کہ بڑے عہدے دار کافی حد تک ان بدعنوانیوں سے واقف تھے؟
جی ہاں ان کے علم میں کافی حد تک ان
بدعنوانیوں کی تفصیل ہوتی، لیکن وہ ان بد عمل عناصر پر اسی وقت ہاتھ ڈالتے جب
انھیں اپنے بڑوں کو مطمئن کرنا ہوتا، اور نیچے کے کچھ ماتحتوں جو ان بڑے عہدے
داروں کے منظور نظر نہ ہوتے ان کو سزا دیتے ہوئے نظر آتے اور اپنے منظور نظر
لوگوں کو یہ بڑے عہدے دار بچالیتے۔یا بعض اوقات ان کے ماتحت اپنے ان بڑے
عہدیداروں کو بچا لیتے جس کا صلہ یہ بڑے عہدے دار ان کو سلطنت کے کسی اور عہدے پر
فائزکر دے دیتے اور وہ ان سرکاری عہدوں پر تا عمر براجمان رہتے اور کوئی ان
کو کچھ نہ کہہ سکتا۔
محل ہم خیال لوگوں کی آماجگاہ بن چکا تھا۔ سب
کو پتہ تھا کہ اگر محل میں سکون سے رہنا ہے تو خاموشی سے سب اچھا ہے کہنا ہے، اور
کسی بھی موقعہ پر کسی قسم کی بحث نہیں کرنی اور اختلاف کا تو سوال ہی پیدا نہیں
ہوتا۔ نئے آنے والے لوگوں کو بھی ان کا ہم خیال ہونا پڑتا کیونکہ ذیادہ تر
اپنی سرکاری نوکری بچانے کی فکر میں ہوتے تھے۔ شعبہ انسانی وسایل بھی ان ہم خیال
لوگوں کی رکھیل بن چکی تھی، وہ کاغزی کاروایئ تک ہی محدود رہ گئے تھے۔
محل کے اکژوزرا اور مشیروں کے اپس میں گہرے روابط، استوار ہو چکے تھے اور یہ روابط
ایک دوسرے کے گھروں تک جا پہنچے تھے۔ لب لباب یہ کہ محل میں وزرا، مشیر اور سلطنت کے
امیر و ماتحٹ سب مالی طور پر مستحکم ہو رہے تھے لیکن سلطنت اس کے حساب سے ترقی
نہیں کر رہی تھی اور سلطنت کے مسائل میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھا۔
عمومی طور پر سلطنت میں کام کرنے والے ملازم
مطمٗن رہتے تھے ، کہ ان کو ان کی کام کی اجرت اپنے وقت پر مل جاتی تھی ، اس کے
علاوہ سلطنت نے اپنے ملازموں کو مفت علاج کی بھی سہولیت فراہم کی ہوئی تھی۔ اس
سلطنت کا اپنے خطے میں ایک اچھا تاثر قائم ہو چکا تھا اور دیگر ممالک اس
سلطنت کے ملازموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور جب بھی ان ملازموں میں سے کوئی
کسی دوسرے ملک میں اعلی اجرت پانے کا موقع پاتا تو ان میں سے کچھ ان کی پیش کش کو
قبول کر لیتے، بعض ایسے ملازم بھی تھے جو کسی عہدیدار کے تنگ کرنے کی وجہ سے ملک
چھوڑ کر چلے جاتے،آہستہ آہستہ ان ملازمیں کے اس سلطنت کو چھوڑ کر جانے کی تعداد
میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔بادشاہ اور وزیراعظم جب بھی اپنے وزراء اور مشیروں سے
اس بارے میں جب بھی استفسار کرتے تو ان کو سب مل کر یہی بتاتے کہ ہماری سلطنت میں
کام کرنے والوں کی اجرت دیگر ممالک کی نسبت کم ہے، اور کچھ کام چھوڑ کرنے جانے
والے ایسے ہیں جو اپنے کام میں سستی کرتے ہوئے پائے گئے اور کچھ کی بےایمانییاں
بڑھتی جارہیں تھیں۔چونکہ اکژ کا موقف ایک ہی ہوتا تھا تو وزیراعظم اور بادشاہ ان
کے کہے پر یقین کر لیتے تھے اور دوسرے لوگوں کا انتخاب کرنے کا کہہ دیتے ساتھ ہی
اس نقصان کا بھی اظہار کرتے کہ سلطنت نے ان لوگوں کو کام سکھانے پر کافی خرچہ کیا
ہے اور ان لوگوں کے جانے کے بعد نئے لوگوں کے آنے پر وقت اور پیسہ ضیاع ہو گا لہزا
کوشش یہ کی جائے کہ نئے لوگوں کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرکے کام پر رکھا
جاءے۔ تمام وزرا اس بات کا وعدہ کرتے اور اکشر ایسے لوگ رکھتے وقت سلطنت سے
اضافی مراعات کا مطالبہ کرتے اور یہ بات باور کرواتے کہ ان کی سلطنت اور ممالک کی
نسبت کم مراعات اپنے ملازموں کو دے رہی ہے۔دوسری جانب لوگوں کو بھرتی کرتے وقت
عھدے داران ابتدائی جانچ پڑتال کرکے ہی اوپر کے عہدے دادارں کی طرف بھجواتے
تھے، ان میں اکژایسے امیدواروں کا نام آگے کرتےجا نسبتاً کم باصلاحیت ہوتے اس کی
وجہ یہ ہوتی کہ وہ یہ سمجھتے کہ اگر انھوں نے باصلاحیت لوگوں کو رکھ لیا تو وہ کل
کو ان کی جگہ لے سکتے ہیں اور ان کی ملازمت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔اس خوف کی وجہ سے
ان کے ماتحتوں میں اگر کوئی اچھی کارگردگی کا مظاہرہ کرتا تو وہ آگے ایسے
بندے کا نام ترقی کے لئے دیتے جو ان کے نزدیک ان کے اشاروں پر ناچتا ہو، نہ
کہ باصلاحیت ہو، اور یہ بھی کہ اگر کوئی ماتحت سچ کا ساتھ دیتا ہوا ان عہدے داران
کی مرضی کے خلاف کام کرتا ہو تو وہ سب عہدے داران مل کر اس ماتحت کے خلاف اکثر
متحد ہو جاتے اور اس کے خلاف ایک محاظ قائم کر کے اسے نوکری چھوڑنے پر مجبور
کر دیتے ااور یہ بات شعبہ انسانی حقوق والے بھی بعض اوقات بھانپنے کے بعد بھی نظر
انداز کردیتے، ہتہ کہ بڑے بڑے وزیر یہاں تک کہ بعض اوقات وزیراعظم اور بادشاہ تک
شازو نادر اگر کوءی اس قسم کی ۔۔۔۔کوئی صورت درپیش ہوتی تو وہ نظریہ ضرورت کے تحت
خاموش ہو جاتے۔
جاری ھے۔۔۔۔۔۔۔
This Post Has One Comment
Very true story great 👍 this is now days a corporate culture.